جب ہونٹوں پہ پیار ترانے آ جاتے ہیں
جیون رُت پہ رُوپ سہانے آ جاتے ہیں
ہم تو پُھولوں کی خُوشبو سے اُکتا کر
تیرے بدن کی باس چُرانے آ جاتے ہیں
اکثر تیرے مدہوشوں سے مِل کر بھی
کچھ لوگوں کے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں
پل بھر کو تم دل سے بُھول بھی جاتے ہو
اس بستی میں بھی ویرانے آ جاتے ہیں
جب سجتی ہے محفل ہم دل والوں کی
ہونٹوں پر خود ہی افسانے آ جاتے ہیں
ہم پاگل تقدیر کے سُوکھے پنگھٹ پر
ارمانوں کی پیاس بُجھانے آ جاتے ہیں
اس محفل کی رونق قائم رہتی ہے
اپنے چھوڑیں تو بیگانے آ جاتے ہیں
نجم یہاں اس آہ و فغاں کی منڈی میں
ہم تو یونہی درد کمانے آ جاتے ہیں
نجم الحسن کاظمی
No comments:
Post a Comment