Wednesday 10 April 2024

قرض لے کر عید کا ساماں خریدیں گے

 عید کی خریداری


مسلماں قرض لے کر عید کا ساماں خریدیں گے

جو دانا ہیں وہ بیچیں گے جو ہیں ناداں خریدیں گے

جو سیاں شوق سے کھائیں وہ سویاں خریدیں گے

مرکب سود کا سودا بہ نقد جاں خریدیں گے

مسلمانوں کے سر پر جب مہ شوال آتا ہے

تو ان کی اقتصادیات میں بھونچال آتا ہے

بہم دست و گریباں سیلز مین اور ان کے گاہک ہیں

وہ غل برپا ہے جیسے نغمہ زن جوہڑ میں مینڈک ہیں

مزاجاً روزہ دار شام بارود اور گندھک ہیں

اور ان میں نظم اور ضبط اور روا داری یہاں تک ہیں

کہ شدت بھوک کی اور پیاس کی ایسے مٹاتے ہیں

بہ زعم روزہ ابنائے وطن کو کاٹ کھاتے ہیں

جو مجھ ایسے ہیں رند ان کو بھی زعم پارسائی ہے

اور اس مضمون کی اک دعوت افطار آئی ہے

کہ اک چالیس سالہ طفل کی روزہ کشائی ہے

فرشتے اس پہ حیراں دم بخود ساری خدائی ہے

خداوند دوعالم سے وہ یہ بیوپار کرتے ہیں

جو رکھا ہی نہیں روزہ اسے افطار کرتے ہیں

میاں بیوی چلے بازار کو بہر خریداری

مٹھائی پھل سویاں عطر جوتے گوشت ترکاری

جو شے بیوی نے لی وہ دوش پر شوہر کے دے ماری

وہ بے چارہ تو خچر ہے برائے بار برداری

بزور قرض دوکانوں پہ اتنا فضل باری ہے

کہ اس گھمسان میں انسان پر انسان طاری ہے

لیا بیوی نے شوہر کے لئے جوتا جو ارزاں ہے

وہ امریکی مدد کی طرح اس کے سر پہ احساں ہے

کہ اس سے فائدہ پہنچے گا اس کو جس کی دوکاں ہے

اور اس شوہر کا جوتا خود اسی کے سر پہ رقصاں ہے

یہ صورت دیکھ کر کہتے ہیں اکثر دل میں بن بیاہے

''دل و دیں نقد لا ساقی سے گر سودا کیا چاہے''

جو سلنے کو دئیے کپڑے وہ ہیں سب حبس بیجا میں

کہ درزی چھپ گیا جب اطلس و کمخواب و دیبا میں

تو ریڈی میڈ کپڑوں کی دکانیں جھانکتا تھا میں

فلک پر قیمتیں لٹکی ہوئی تھیں شاخ طوبیٰ میں

مبارک ماہ کے اندر ہمیں سے نفع خوری ہے

نہیں ہوتا ہے باطل جس سے روزہ یہ وہ چوری ہے

یہ سویاں جو بل کھاتی ہوئی معدے میں جائیں گی

سیاسی گتھیوں کو اور الجھانا سکھائیں گی

ہماری آنے والی نسل کے لیڈر بنائیں گی

جو لیڈر بن چکے ہیں ایبڈو ان کو کرائیں گی

''قد و گیسو میں قیس و کوہ کن کی آزمائش ہے

جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے''

مہینے بھر کے روزوں بعد حق نے دن یہ دکھلایا

علی الاعلان کھایا دوستوں کے ساتھ جو پایا

یہ پہلے ڈر تھا ہم کو جھانک کر دیکھے نہ ہمسایہ

بجز خوف خدا دن میں بظاہر کچھ نہ تھا کھایا

حسینوں مہ وشوں کو اب سر بازار دیکھیں گے

گئے وہ دن کہ کہتے تھے پس از افطار دیکھیں گے


سید محمد جعفری

No comments:

Post a Comment