اسے عید مبارک کہتی ہوں
آج بھی برسوں بعد مِرے
کانوں میں صدا تیری آئے
میں چاند ہوں جاناں، چاندہوں مَیں
سُن چاند ہوں تیری عید کا میں
پیغام ہوں ایک نوید کا میں
رنگوں سے سجی، خُوشبومیں بسی
ہر دِید کا اک انعام ہوں میں
پیغام ہوں میں
وہ جو تیری صدا کالمحہ تھا
مِری ساکن روح میں اُتر گیا
اس لمحے نے کیسے ہم کو شاداب کیا، نایاب کیا
دل کی بنجر جو مٹی تھی اس کو کیسے سیراب کیا
ہر خار کو پھُول کیا اس نے، ہر ذرے کو مہتاب کیا
وہی لمحہ میری حیات بنا
وجہِ تکمیلِ ذات بنا
اسی اک لمحے میں آج تلک
مِری رُوح کہیں پر اٹک گئی
٭
پھراک لمحہ وہ بھی آیا
جب میرا چاندہی ماند ہُوا
کوئی دید رہی، نہ ہی عید رہی
نہ ہی خُوشیوں کی اُمید رہی
پھر عید نہ اُتری آنگن میں
اک لمحہ ایسے محیط ہُوا
میں اپنی ذات میں سمٹ گئی
اور خُوشیوں کی ہر اک رُت پھر
مِرے دروازے سے پلٹ گئی
لیکن جب عید کا دن آئے
وہی لمحہ لوٹ کے آتا ہے
وہی لہجہ لوٹ کے آتا ہے
وہی چاند نظر میں سماتا ہے
کس حال میں اب وہ رہتا ہے
کس حال میں اب میں رہتی ہوں
اسی دھارے میں بس بہتی ہوں
اسے عید مبارک کہتی ہوں
اسے عید مبارک کہتی ہوں
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment