اِک مجمعِ کثیر میں چُھپتا ہوا چراغ
اِک دوسرے چراغ کی لو اوڑھتے ہوئے
سمجھا رہا ہے آخری حُجت کے طور پر
لوگوں کو روشنی کی وراثت کا مسئلہ
اور چند چہرے ہیں کہ جنہیں تِیرگی کا غم
پہلوئے آفتاب میں بھی کھائے جاتا ہے
افلاک کی حدوں سے پرے اِک ستارہ ساز
ہنستا ہے اور ہنس کے فقط اتنا کہتا ہے
اے میرے شب گزیدہ، شکستہ بدن چراغ
"کُفار تیرے دِین سے مایوس ہو گئے"
علی قائم نقوی
No comments:
Post a Comment