سرکشی
میری بیڑیوں کو زور سے کسو
میرے کاغذات ضبط کر ڈالو
میری سگرٹیں بھی چھین لو
میرے مُنہ میں خاک بھر دو
لیکن تمہیں یہ بتا دوں کہ
شاعری ہوتی ہے
رگوں میں بہتے لہو کے جیسے
شاعری ہوتی ہے
روٹی میں ملے نمک کے جیسے
شاعری ہوتی ہے
آنکھوں میں بسے پانی کے جیسے
لیکن تمہیں یہ بتا دوں کہ
یہ تو ناخنوں سے لکھی جاتی ہے
بہتی آنکھوں سے لکھی جاتی ہے
اور تلواروں سے لکھی جاتی ہے
اذیت ناک زنداں کا باتھ روم
بدبودار اور غلاظت سے بھرا
جہاں ہمیں برسوں سے پا بہ زنجیر
وہ بے رحمی سے مارتے پیٹتے ہیں
لیکن تمہیں یہ بتا دوں کہ
اب کی بار جب ہم پر
کوڑے برسائے جائیں گے
بیڑیوں کی خوفناک کھنکھناہٹ میں
زور سے چلا کر
میں یہ اعلان کروں گا کہ
میرے دل کی شاخوں پر
ہزار پرندے بہ یک آواز
انقلاب کے نغمے گا رہے ہیں
شاعر؛ محمود درویش
No comments:
Post a Comment