Sunday 9 June 2024

بیتا ہے جو بھی اس کو گزر جانا چاہیے

 بیتا ہے جو بھی اس کو گزر جانا چاہیے

اس درد کو کہیں تو ٹھہر جانا چاہیے

ہم نے تمام عمر سفر میں گزار دی

اب زندگی کی شام ہے، گھر جانا چاہیے

تھاما نہ جس نے ہاتھ زمانے کی بھیڑ میں

اس کو ہمارے دل سے اتر جانا چاہیے

اب نیند سے ہمارا نہیں واسطہ کوئی

اے خواب اب تجھے بھی بکھر جانا چاہیے

اس راہ پر جہاں سے پلٹتا نہیں کوئی

اک بار تو ہمیں بھی ادھر جانا چاہیے


فرزانہ ساجد

No comments:

Post a Comment