Wednesday, 7 August 2024

اصلی مجرم خود ہی تھانیدار تھا

 اصلی مجرم خُود ہی تھانیدار تھا

میرا دُشمن بھی پُرانا یار تھا

روز کوئی ڈُوب کے مر جاتا تھا

اور تیرا گھر بھی دریا پار تھا

جیب میری پیسوں سے خالی ہوئی

ہاں مگر اس کو تو مجھ سے پیار تھا

اُس کے دل میں خواہشیں ہی خواہشیں

میرے گھر سے پہلے اک بازار تھا

پاؤں کاٹے جا چکے تھے تب تلک

جب ہمارا راستہ ہموار تھا


دانش درانی

No comments:

Post a Comment