اتری ہیں در و بام سے اکثر تِری یادیں
آتی ہیں دریچوں سے بھی چھن کر تری یادیں
کرنے نہیں دیتی ہیں کوئی کام کسی طور
مفلوج مجھے رکھتی ہیں دن بھر تری یادیں
شاداب ہی رہتا ہے سدا زخموں سے تیرے
ہونے نہ دیں دل کو کبھی بنجر تری یادیں
مجھ کو تو کبھی چھوڑ کے جاتی ہی نہیں ہیں
تجھ سے تو کئی درجہ ہیں بہتر تری یادیں
آواز چھناکے کی میں سنتی ہوں ہمیشہ
آئینہ ہے دل میرا تو پتھر تری یادیں
آنکھوں سے ابل پڑتی ہیں میں روکوں تو کیسے
کوزہ مِرا دل ہے تو سمندر تِری یادیں
فرزانہ بھلا خود کو بچائے بھی تو کیسے
فرزانہ پروین
No comments:
Post a Comment