عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بس یہی ایک جینا تو جینے میں تھا میں مدینے میں تھا
دل مرا خود کہاں میرے سینے میں تھا میں مدینے میں تھا
داغِ عصیاں لیے چومتا کیا بھلا جالی خوشنما
میں شرابور اپنے پسینے میں تھا میں مدینے میں تھا
نور و نکہت میں ڈوبی ہوئی رات تھی لب پہ اک نعت تھی
اور میں رحمتوں کے خزینے میں تھا میں مدینے میں تھا
دل میں کچھ مدّعا میرے آیا نہیں لب ہلایا نہیں
اشک بس آنکھ کے آبگینے میں تھا میں مدینے میں تھا
ساکت و جامد اس در پہ سب تھے کھڑے سارے چھوٹے بڑے
زمزمہ دھڑکنوں کا قرینے میں تھا میں مدینے میں تھا
ان کے ہاتھوں سے خیرات بٹتی رہی بھیڑ چھٹتی رہی
مست میں بھی مئے جود پینے میں تھا میں مدینے میں تھا
جب نواز ان کے کوچے میں موجود تھا مجھ کو ایسا لگا
اک خذف تھا جڑا جو نگینے میں تھا میں مدینے میں تھا
نواز اعظمی
No comments:
Post a Comment