خودکلامی
رات ہے اور بہت کالی ہے
سانس لینے میں بھی
احساسِ زیاں ہے شامل
سینہ کوبی کے لیے ہاتھ نہیں ہیں جیسے
دل کی دھڑکن
کسی ماتم کی طرح لگتی ہے
حال فردا کا ہے منکر ایسا
جیسے منکر ہو خدا کا کوئی
کس قدر دھند ہے بغداد سے غرناطہ تک
یہ مرے ہاتھ میں دِلّی ہے کہ ڈھاکا
یا پھسلتی ہوئی ریت؟
جسم تو جسم ہے
احساس بھی قندوز ہوا جاتا ہے
کند ہتھیار ہوئی زود فراموشی بھی
کتنے دیرینہ رفیقوں کا یہی عالم ہے
چیخنے تک سے ہویدا کوئی فریاد نہیں
ایسا لگتا ہے کہ اب عالمِ خوں بستہ میں
خود کلامی کے برابر کوئی ایجاد نہیں
شاہنواز فاروقی
No comments:
Post a Comment