تم سے بچھڑ کے زندگی دیکھی زوال میں
ہر لمحہ ڈھل رہا ہے مِرا سال سال میں
پھر ہونٹ سوکھنے لگے میرے جواب کے
صحرا کی تشنگی تھی تمہارے سوال میں
آنچل کی ٹھنڈی چھاؤں بہت یاد آئی ماں
آیا تھا گھر کو چھوڑ کے جب اشتعال میں
مت پوچھئے کہ کس طرح کٹتے ہیں رات دن
گزری ہے ساری عمر ہی حُزن و ملال میں
کاڑھا تھا سُرخ دھاگے سے کونے میں ایک نام
یادیں مہک رہی ہیں ابھی تک رومال میں
یوں تو مِرے نصیب میں آسودگی نہیں
اس کا خیال ہے کہ ہوں آسودہ حال میں
آنکھوں میں نقش ہے میری وہ لمحہ بے مثال
ڈِمپل جو بن گئی تھی ہنسنے سے گال میں
اب اس سے آگے بڑھنا، ہمارا محال ہے
حماد آ گئے ہیں حسینوں کے جال میں
حماد باقر
No comments:
Post a Comment