Wednesday, 7 August 2024

تم سے بچھڑ کے زندگی دیکھی زوال میں

 ‎تم سے بچھڑ کے زندگی دیکھی زوال میں 

‎ہر لمحہ  ڈھل رہا ہے مِرا سال سال میں 

‎پھر ہونٹ سوکھنے لگے میرے جواب کے

‎صحرا کی تشنگی تھی تمہارے سوال میں

‎آنچل کی ٹھنڈی چھاؤں بہت یاد آئی ماں

‎آیا تھا گھر کو چھوڑ کے جب اشتعال میں

‎مت پوچھئے کہ کس طرح کٹتے ہیں رات دن

‎ گزری ہے ساری عمر ہی حُزن و ملال میں

‎کاڑھا تھا سُرخ دھاگے سے کونے میں ایک نام

‎یادیں مہک رہی ہیں ابھی تک رومال میں

‎یوں تو مِرے نصیب میں آسودگی نہیں

‎اس کا خیال ہے کہ ہوں آسودہ حال میں

‎آنکھوں میں نقش ہے میری وہ لمحہ بے مثال

‎ڈِمپل جو بن گئی تھی ہنسنے سے گال میں

‎اب اس سے آگے بڑھنا، ہمارا محال ہے

‎حماد آ گئے ہیں حسینوں کے جال میں

حماد باقر

No comments:

Post a Comment