Tuesday, 6 August 2024

خوش مزاجی کا دکھاوا بھی نہیں کر سکتے

 خوش مزاجی کا دکھاوا بھی نہیں کر سکتے

ہم وہ کاہل ہیں جو اتنا بھی نہیں کر سکتے

وہ سناتے ہیں رہائی کے فریضے سب کو

جو رہا ایک پرندہ بھی نہیں کر سکتے

کتنے مجبور ہیں ہم عام سی شکلوں والے

خود کو ایجاد دوبارہ بھی نہیں کر سکتے

چاہتے ہیں جسے دشمن کی نواسی نکلی

اب تو ہم عشق ادھورا بھی نہیں کر سکتے

اس لیے بنتا نہیں طنز تماشے پہ مِرے

یاں تو کچھ لوگ تماشہ بھی نہیں کر سکتے

جسم سانسوں کی ستمگار روانہ سے میاں

ایسا بکھرا ہے اکٹھا بھی نہیں کر سکتے


آفتاب شکیل آفی

No comments:

Post a Comment