خوش مزاجی کا دکھاوا بھی نہیں کر سکتے
ہم وہ کاہل ہیں جو اتنا بھی نہیں کر سکتے
وہ سناتے ہیں رہائی کے فریضے سب کو
جو رہا ایک پرندہ بھی نہیں کر سکتے
کتنے مجبور ہیں ہم عام سی شکلوں والے
خود کو ایجاد دوبارہ بھی نہیں کر سکتے
چاہتے ہیں جسے دشمن کی نواسی نکلی
اب تو ہم عشق ادھورا بھی نہیں کر سکتے
اس لیے بنتا نہیں طنز تماشے پہ مِرے
یاں تو کچھ لوگ تماشہ بھی نہیں کر سکتے
جسم سانسوں کی ستمگار روانہ سے میاں
ایسا بکھرا ہے اکٹھا بھی نہیں کر سکتے
آفتاب شکیل آفی
No comments:
Post a Comment