یہ شہر ہے یا کوئی سانپوں کا جزیرا ہے
ہر کوئی گلے مل کر جذبات کو ڈستا ہے
انسان حقیقت میں اور اس کے سوا کیا ہے؟
مہکی ہوئی مِٹی کا معصوم سا سپنا ہے
سب دیکھتے رہتے ہیں آئینے میں چہرے کو
میں نے مِرے چہرے میں آئینے کو دیکھا ہے
جس لفظ کو تم اکثر بے مایہ سمجھتے ہو
دیکھو تو وہ قطرہ ہے سمجھو تو وہ دریا ہے
مصنوعی دکھاوا ہے اک زخم کا مٹ جانا
یہ پھول ہے ایسا جو مرجھا کے نکھرتا ہے
اک رمز ہے یہ ہستی اک راز ہے یہ دنیا
ہم سمجھیں بھلا کیسے پردے پہ بھی پردا ہے
آنکھوں کے مقابل تو بے لاگ مناظر ہیں
نظروں کو کوئی منظر مشکل ہی سے جچتا ہے
ایمان کی راہوں پہ خطرہ ہے لٹیروں کا
ہر سمت نظر رکھنا ہر گام پہ دھوکا ہے
اس کذب کی وادی میں آساں نہیں سچ کہنا
سوچوں پہ ہے پابندی افکار پہ پہرا ہے
وہ تجربے جو حافظ حاصل ہوئے دنیا سے
میں نے انہیں چن چن کے شعروں میں پرویا ہے
حافظ کرناٹکی
امجد حسین
No comments:
Post a Comment