Friday 1 November 2024

یہ شہر ہے یا کوئی سانپوں کا جزیرا ہے

 یہ شہر ہے یا کوئی سانپوں کا جزیرا ہے

ہر کوئی گلے مل کر جذبات کو ڈستا ہے

انسان حقیقت میں اور اس کے سوا کیا ہے؟

مہکی ہوئی مِٹی کا معصوم سا سپنا ہے

سب دیکھتے رہتے ہیں آئینے میں چہرے کو

میں نے مِرے چہرے میں آئینے کو دیکھا ہے

جس لفظ کو تم اکثر بے مایہ سمجھتے ہو

دیکھو تو وہ قطرہ ہے سمجھو تو وہ دریا ہے

مصنوعی دکھاوا ہے اک زخم کا مٹ جانا

یہ پھول ہے ایسا جو مرجھا کے نکھرتا ہے

اک رمز ہے یہ ہستی اک راز ہے یہ دنیا

ہم سمجھیں بھلا کیسے پردے پہ بھی پردا ہے

آنکھوں کے مقابل تو بے لاگ مناظر ہیں

نظروں کو کوئی منظر مشکل ہی سے جچتا ہے

ایمان کی راہوں پہ خطرہ ہے لٹیروں کا

ہر سمت نظر رکھنا ہر گام پہ دھوکا ہے

اس کذب کی وادی میں آساں نہیں سچ کہنا

سوچوں پہ ہے پابندی افکار پہ پہرا ہے

وہ تجربے جو حافظ حاصل ہوئے دنیا سے

میں نے انہیں چن چن کے شعروں میں پرویا ہے


حافظ کرناٹکی

امجد حسین

No comments:

Post a Comment