Friday, 1 November 2024

کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے

 کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے

پر یہ وہ شے ہے نہ بیچوں بھی تو سو بار بکے

لوح مرتد پہ یہ محمود کے لکھ دینا تھا

حسن وہ شے ہے کہ لیتے ہی خریدار بکے

 سو ہی جاوے مِرے طالع کے برابر آ کر

کیا ہو گر بخت عدو بھی سر بازار بکے

ہوں خلش دوست دعا ہے کہ دوا کے بدلے

یا رب! اس عہد میں درد دل بیمار بکے

بک کے یوسف نے خریدا ہے وہ رتبہ کہ نہ پوچھ

یہ ہی بکنا ہے تو ہم مفت ہی سو بار بکے

پوشش کعبہ سے کیا کم ہے اگر دل پر ہے

چاہیے میرے گریباں کا ہر اک تار بکے

جب وہ غارت گر ایماں ہے تو حیرت کیا ہے

دیر میں جبہ دستار بکے، کعبے میں زنار بکے

خوف ہے یہ دل بے تاب نہ بر میں آ جائے

ہم نہ لیں مول جو وہ طرۂ طرار بکے

بار عصیاں کو اٹھائے ہوئے پھرتا کب تک

مفت ہی ٹال دوں سالک جو یہ انبار بکے


قربان علی سالک بیگ

No comments:

Post a Comment