کب ہے منظور کہ یوں جنس دل زار بکے
پر یہ وہ شے ہے نہ بیچوں بھی تو سو بار بکے
لوح مرتد پہ یہ محمود کے لکھ دینا تھا
حسن وہ شے ہے کہ لیتے ہی خریدار بکے
سو ہی جاوے مِرے طالع کے برابر آ کر
کیا ہو گر بخت عدو بھی سر بازار بکے
ہوں خلش دوست دعا ہے کہ دوا کے بدلے
یا رب! اس عہد میں درد دل بیمار بکے
بک کے یوسف نے خریدا ہے وہ رتبہ کہ نہ پوچھ
یہ ہی بکنا ہے تو ہم مفت ہی سو بار بکے
پوشش کعبہ سے کیا کم ہے اگر دل پر ہے
چاہیے میرے گریباں کا ہر اک تار بکے
جب وہ غارت گر ایماں ہے تو حیرت کیا ہے
دیر میں جبہ دستار بکے، کعبے میں زنار بکے
خوف ہے یہ دل بے تاب نہ بر میں آ جائے
ہم نہ لیں مول جو وہ طرۂ طرار بکے
بار عصیاں کو اٹھائے ہوئے پھرتا کب تک
مفت ہی ٹال دوں سالک جو یہ انبار بکے
قربان علی سالک بیگ
No comments:
Post a Comment