آشنا سب سے ہے زمانے میں
ہوش کتنا ہے اس دِوانے میں
سب ہیں اونچے محلات کے شیدائی
کون آئے غریب خانے میں
کس قیامت سے ہم گزرتے ہیں
تیری محفل سے اٹھ کے جانے میں
کتنی صدیاں لگیں ہمیں ہمدم
تیرے دل کے قریب آنے میں
اپنی دنیا اجاڑ لی ہم نے
تیرا ویراں نگر بسانے میں
اک تمنا جو بے ارادہ پلی
"حسرتوں کے یتیم خانے میں"
درد ہے درد کے سوا کیا ہے
عشق کے بے کراں خزانے میں
تم نہیں جو ہمارے ساتھ سرور
پھر رکھا کیا ہے اس زمانے میں
قمر سرور
No comments:
Post a Comment