Monday, 30 December 2024

نشاط درد کا دریا اترنے والا ہے

 نشاطِ درد کا دریا اترنے والا ہے

میں اس سے اور وہ مجھ سے ابھرنے والا ہے

میں اس کی نرم نگاہی سے ہو گیا مایوس

وہ میری سادہ دلی سے مُکرنے والا ہے

وہ میرے عشق میں دیوانہ وار پھرنے لگے

یہ معجزہ تو فقط فرض کرنے والا ہے

مِرے خیال کی پرواز سے جو واقف ہے

وہ آشنا ہی مِرے پر کترنے والا ہے

ابھی ابھی مِرے کچھ دوست آنے والے ہیں

میں سوچتا تھا ہر اک زخم بھرنے والا ہے

فصیلِ جسم پہ کچھ نقش چھوڑ جائے گا

جو حادثہ مِرے دل پر گزرنے والا ہے

بس اس خیال میں بگڑا رہا میں برسوں تک

اب ایک دن میں کیا سُدھرنے والا ہے

وہ بن کے زیست مِرے پاس آ گیا ہے امر

یہ وقت میرے لیے عین مرنے والا ہے


امردیپ سنگھ

No comments:

Post a Comment