Wednesday, 25 December 2024

کوئی منجدھار نہ دھارا ہے خدا خیر کرے

 کوئی منجدھار نہ دھارا ہے خدا خیر کرے

آج کیوں پاس کنارا ہے خدا خیر کرے

پھر نشیمن کو سنوارا ہے خدا خیر کرے

برق کی آنکھ کا تارا ہے خدا خیر کرے

دیکھیں لوٹ آتی ہے آواز کہ ملتا ہے جواب

دل نے پھر تجھ کو پکارا ہے خدا خیر کرے

ہوش پانے کا نہیں دل کہ جو پانی مانگے

زلف شبرنگ کا مارا ہے خدا خیر کرے

ذہن اپنائے ہوئے فکر پہ وہ چھائے ہوئے

گھر نہ سامان ہمارا ہے خدا خیر کرے

اب گریباں ہی سلامت ہے، نہ دامن باقی

پھر بہاروں نے پکارا ہے خدا خیر کرے

اک فسوں کار ہے غارت گر ہوش و تمکیں

جس نے شیشے میں اتارا ہے خدا خیر کرے

کل جئیں یا نہ جئیں، آج تِرے جانے پر

وقت مر مر کے گزارا ہے خدا خیر کرے

کتنے عیسیٰ ہیں جو اس دور میں دیتے ہیں جواب

پھر صلیبوں نے پکارا ہے خدا خیر کرے

پھر کوئی بن کے مہرباں نہ کرے اس پہ نظر

غم کو ہنس ہنس کے نکھارا ہے خدا خیر کرے

کیا ملے دل کہ نظر بھی نہیں ملتی عامر

حسن خودبیں و خود آرا ہے خدا خیر کرے


عامر موسوی

No comments:

Post a Comment