کوئی منجدھار نہ دھارا ہے خدا خیر کرے
آج کیوں پاس کنارا ہے خدا خیر کرے
پھر نشیمن کو سنوارا ہے خدا خیر کرے
برق کی آنکھ کا تارا ہے خدا خیر کرے
دیکھیں لوٹ آتی ہے آواز کہ ملتا ہے جواب
دل نے پھر تجھ کو پکارا ہے خدا خیر کرے
ہوش پانے کا نہیں دل کہ جو پانی مانگے
زلف شبرنگ کا مارا ہے خدا خیر کرے
ذہن اپنائے ہوئے فکر پہ وہ چھائے ہوئے
گھر نہ سامان ہمارا ہے خدا خیر کرے
اب گریباں ہی سلامت ہے، نہ دامن باقی
پھر بہاروں نے پکارا ہے خدا خیر کرے
اک فسوں کار ہے غارت گر ہوش و تمکیں
جس نے شیشے میں اتارا ہے خدا خیر کرے
کل جئیں یا نہ جئیں، آج تِرے جانے پر
وقت مر مر کے گزارا ہے خدا خیر کرے
کتنے عیسیٰ ہیں جو اس دور میں دیتے ہیں جواب
پھر صلیبوں نے پکارا ہے خدا خیر کرے
پھر کوئی بن کے مہرباں نہ کرے اس پہ نظر
غم کو ہنس ہنس کے نکھارا ہے خدا خیر کرے
کیا ملے دل کہ نظر بھی نہیں ملتی عامر
حسن خودبیں و خود آرا ہے خدا خیر کرے
عامر موسوی
No comments:
Post a Comment