صلہ جو پیار کا نفرت ہے کوئی بات نہیں
تمہیں جو غیر سے الفت ہے کوئی بات نہیں
مجھے نکال رہے ہو حضور! محفل سے
جو یہ شعارِ محبت ہے کوئی بات نہیں
سمجھ رہے ہو رقیبوں کو تم رفیق اپنا
یہ چند روزہ رفاقت ہے کوئی بات نہیں
وہ بے قرار ہیں جلوے بکھیرنے کے لیے
دل و نظر میں جو حسرت ہے کوئی بات نہیں
ہوا ہے شہرِ تمنا میں حُسن کا چرچہ
یہ بات عشق پہ تہمت ہے کوئی بات نہیں
چلاؤ تیرِ ستم،۔ خونِ آرزو کر دو
اگر یہ رنگِ محبت ہے کوئی بات نہیں
لہو لہو ہے محبت کا قافلہ بسمل
جو تُو بھی صیدِ قیادت ہے کوئی بات نہیں
بسمل جلالوی
No comments:
Post a Comment