Sunday, 29 December 2024

بیٹھا ہے سوگوار ستمگر کے شہر میں

 بیٹھا ہے سوگوار ستمگر کے شہر میں

کس کو پکارے آئینہ پتھر کے شہر میں

بے جا نہیں فضاؤں کا حیرت میں ڈوبنا

اتنا سکوت اور سخن ور کے شہر میں

اس دور میں اسی کو ہنر مند مانیے

جینا نہیں پڑا جسے مر مر کے شہر میں

منزل قریب آئی تو رستہ بھلا گیا

پھرتے ہیں خاک چھانتے رہبر کے شہر میں

سورج نظر بچا کے تو گزرا نہ تھا مگر

اتریں نہیں شعاعیں مقدر کے شہر میں

انساں کہوں انہیں کہ فرشتوں کا نام دوں

جو لوگ درد مند ہیں بے گھر کے شہر میں

شاید نکل ہی آئے کوئی چارہ گر فگار

اک بار اور دیکھ صدا کر کے شہر میں


امر سنگھ فگار

No comments:

Post a Comment