Thursday, 26 December 2024

تلخیاں رہ جائیں گی لفظ وفا رہ جائے گا

 تلخیاں رہ جائیں گی، لفظِ وفا رہ جائے گا

درمیاں اخلاص کے پھر اک خلا رہ جائے گا 

حادثاتِ زندگی پر غور کرنا چاہیے

چھوٹ جائے گا نوالہ، سب پڑا رہ جائے گا

آنگنوں کے درمیاں دیوار جو اٹھ جائے گی 

دھوپ میں اپنا کوئی باہر کھڑا رہ جائے گا 

دن کے ہنگامے میں گم ہو جائے گا میرا وجود

آئینہ میں مجھ سا کوئی دوسرا رہ جائے گا

اس مسافت کی کبھی تکمیل ممکن ہی نہیں 

آنے جانے کا فقط اک سلسلہ رہ جائے گا

دیکھ کر مکروہ سازش گاؤں کی دہلیز تک 

سوچتا ہوں میں نظامی کیا بچا رہ جائے گا


حسن نظامی

No comments:

Post a Comment