Tuesday, 17 December 2024

سر ایذا رسانی چل رہی ہے

 سر ایذا رسانی چل رہی ہے

طبیعت میں گرانی چل رہی ہے

اسی دل کے ہزاروں وسوسوں میں

وہی دھڑکن پرانی چل رہی ہے

چلا جاتا ہے ہر اک چل چلاؤ

جو شے ہے آنی جانی چل رہی ہے

میں برگ خشک ہوں ہمراہ میرے

ہوا کی بد گمانی چل رہی ہے

بدن میں سانس کی صورت یقیناً

کوئی نقل مکانی چل رہی ہے

بہت ہی مختصر سی زندگی میں

بڑی لمبی کہانی چل رہی ہے

ابھی وہ ساتھ ہے میرے سو مجھ پر

خدا کی مہربانی چل رہی ہے

سبھی کردار تھک کر سو گئے ہیں

مگر اب تک کہانی چل رہی ہے

خیال آتا تھا اس کا جس روش پر

اب اس پر بے خیالی چل رہی ہے


خاور جیلانی

No comments:

Post a Comment