وہ عکس نارسا بھی مرے آئینوں میں تھا
منزل نما سراب تھا اور راستوں میں تھا
لہرا رہا ہے اب بھی وہ منظر نگاہ میں
آنچل سا ایک گاؤں کی پگڈنڈیوں میں تھا
آسان تو نہیں تھی سمندر سے دشمنی
یہ حوصلہ تو دوست! فقط ساحلوں میں تھا
تم سے بھی کوئی راہ تراشی نہ جا سکی
میں بھی ہتھیلیوں کے گھنے جنگلوں میں تھا
کوشش کے باوجود جو پوری نہ ہو سکیں
اے دوست! تِرا نام انہی خواہشوں میں تھا
حسن جاوید
No comments:
Post a Comment