Thursday, 19 December 2024

وہ سنگدل مرا رہبر ہے کیا کیا جائے

 وہ سنگ دل مِرا رہبر ہے کیا کیا جائے

اور اس کے ہاتھ میں خنجر ہے کیا کیا جائے

مِرے بزرگوں کے سر پر ہُما کا سایہ تھا

یہ آج غیروں کے سر پر ہے کیا کیا جائے

یہ ہولی اس نے جو کھیلی ہے آتش و خُوں کی

سفیر امن بھی ششدر ہے کیا کیا جائے

اُڑیں کی دھجیاں پھر امن کی کہ وہ ظالم

کھڑا ہوا سرِ منبر ہے کیا کیا جائے

یہ تخت و تاج یہ محلوں کا کل جو والی تھا

وطن میں اپنے ہی بے گھر ہے کیا کیا جائے

بتاؤ، کیسے جلاؤں میں شمع اُلفت کی

کہ تیز بُغض کی صرصر ہے کیا کیا جائے

ذکی وہ اپنی صفائی میں خواہ کچھ بھی کہے

گُمان میرا برابر ہے کیا کیا جائے

وہ جس نے خُون سے سینچا تھا اس چمن کو ذکی

خلاف اس کے ہی محضر ہے کیا کیا جائے


کوکب ذکی

No comments:

Post a Comment