Sunday, 22 December 2024

اڑیں گی تا کجا چھینٹیں لہو کی تیغِ قاتل سے

 اڑیں گی تا کجا چھینٹیں لہو کی تیغِ قاتل سے

کہاں تک اب زمیں رنگین ہو گی خونِ بسمل سے

کہاں تک بجلیاں گرتی رہیں گی آشیانوں پر

کہاں تک حشر اٹھے گا نوحۂ شورِ عنادل سے

کہاں تک نا خدا ہمت کرے گا موجِ طوفاں سے

کہاں تک غرق ہوں گی کشتیاں ٹکرا کے ساحل سے

کہاں تک قیس کے نالے نہ ممنونِ اثر ہوں گے

کہاں تک اب نہ لیلیٰ جھانک کر دیکھے گی محمل سے

کہاں تک طالبانِ حق رہیں گے قید خانوں میں

کہاں تک عقل جکڑی جائے گی بندِ سلاسل سے

کہاں تک اور قسمت میں ابھی ہیں ٹھوکریں کھانی

کہاں تک کارواں بھٹکا پھرے گا اپنی منزل سے

کہاں تک اب رہے گا سلسلہ دورِ حوادث کا

کہاں تک مشکلوں کی چارہ سازی ہو گی مشکل سے

کہاں تک اب زباں کٹتی رہے گی شکوۂ غم پر

کہاں تک جوشِ بے تابی میں نکلے کی دعا دل سے

کہاں تک اب نہ احساسِ تمیزِ نیک و بد ہو گا

کہاں تک ہمسری ذرے کریں گے ماہِ کامل سے

کہاں تک دوستی کا نام لے کر دشمنی ہو گی

کہاں تک ایک دل دھوکا کرے گا دوسرے دل سے

کہاں تک رہنمائی رہزنی سے ساز رکھے گی

کہاں تک ہو گا محفل میں اندھیرا شمعِ محفل سے

رہے گا اور کب تک آئینہ خانے کا نظارہ؟

چلیں گی تا کجا چوٹیں مقابل کی مقابل سے


علامہ سریر کابری

No comments:

Post a Comment