بے جرم و خطا موردِ الزام ہوئے ہیں
ہم قتل ہوئے بھی تو سرِ عام ہوئے ہیں
اے گردشِ ایام! ذرا دیکھ تو آ کے
گِرنے کو مِرے گھر کے در و بام ہوئے ہیں
اک دور تھا اس اس دور میں تھا نام ہمارا
اس دور میں کیا آئے کہ بدنام ہوئے ہیں
دن بھر کے اٹھائے ہوئے ہر غم کو بھُلانے
ہم ہوش سے بے گانہ سرِ شام ہوئے ہیں
نام ان کے جو دُشمن ہیں مِرے، میری زباں کے
آئے جو زباں پر مِری دشنام ہوئے ہیں
خسرو تھا قصور اتنا غریبی میں پلے تھے
وہ جسم اندھیروں میں جو نیلام ہوئے ہیں
امیر احمد خسرو
No comments:
Post a Comment