Saturday, 21 December 2024

آدمی یہ بھی وہ بھی سارے ہیں

 خاکساروں کے فن کرارے ہیں

خاک اوڑھے ہوئے شرارے ہیں

آدمی یہ بھی وہ بھی سارے ہیں

نت نئے رنگ روپ دھارے ہیں

کیوں نہ خودبیں ہوں ماہ پارے ہیں

پیار کرتے نہیں جو پیارے ہیں

مٹ گئے جو وفا کی راہوں میں

کتنے انمٹ نشاں ابھارے ہیں

کس سے شکوہ ہو بے وفائی کا

ہم تو اپنی وفا کے مارے ہیں

یوں بجھے دل کی حسرتیں نہ کرید

راکھ کے ڈھیر میں شرارے ہیں

جن کی کوئی سحر نہ شام کوئی

ہم نے ایسے بھی دن گزارے ہیں

جان لیوا ہیں پیار کے رشتے

ان پہ مرتے ہیں جن کے مارے ہیں

غم میں ہنستا خوشی میں روتا ہے

طور عامر کے سب نیارے ہیں


عامر موسوی

No comments:

Post a Comment