اگر جنوں کا مقابل شعُور نکلے گا
تو سادگی کا بھی اک رُخ غرُور نکلے گا
کھنڈر دیارِِ وفا کے کرید کر دیکھو
ہمارے نام کا پتھر ضرُور نکلے گا
وہ بچہ جس کی شرارت سے ماں پریشاں ہے
جوان ہو کے بہت با شعُور نکلے گا
گُزرتی صدیو! تمہیں یہ بھی دیکھنا ہے ابھی
جو قتل ہو گا، اُسی کا قصُور نکلے گا
سُنا رہا ہے زمانہ بہ اعتماد جسے
وہ واقعہ بھی حقیقت سے دُور نکلے گا
جو قُربتوں سے بدل دے گا فاصلے گوہر
وہ آفتاب کسی دن ضرُور نکلے گا
گوہر عثمانی
No comments:
Post a Comment