ہم پیاس کے ماروں کا اس طرح گزارا ہے
آنکھوں میں ندی لیکن ہاتھوں میں کنارا ہے
دو چار قدم چل کر، دو چار گھڑی رکنا
منزل بھی تمہاری ہے رستہ بھی تمہارا ہے
پلکوں کے نشیمن سے ہونٹوں کے گلستاں تک
کچھ حسن تمہارا ہے، کچھ عشق ہمارا ہے
پھولوں کے مہکنے کا کوئی تو سبب ہوگا
یا زلف پریشاں ہے، یا لب کا اشارا ہے
برفاب سی دنیا میں بس عشق کو تھامے رکھ
یہ آگ کا دریا ہی تنکے کا سہارا ہے
اے پیر مغاں تیرے میخانے میں تو ہم نے
اک مے ہی نہیں پی ہے جیون بھی گزارا ہے
یہ شے جو شب ہجراں جلتی ہے نہ بجھتی ہے
اب آ کے تمہیں دیکھو جگنو ہے کہ تارا ہے
امیت بجاج
امت بجاج
No comments:
Post a Comment