Friday, 27 December 2024

نا آشنا گر مجھ سے مرے یار نہ ہوتے

 نا آشنا گر مجھ سے مِرے یار نہ ہوتے

حالات سے ہم ایسے تو بیزار نہ ہوتے

اس طرح مجھے آپ نے چھوڑا نہیں ہوتا

دامن میں مَرے پھول تھے یہ خار نہ ہوتے

ہوتے نہ زلیخا سے خریدار تو شاید

یوسف کے لیے مصر کے بازار نہ ہوتے

کر دیتا اگر ہم پہ عنایت کی نظر تو

پھر تیری نظر کے ہی طلبگار نہ ہوتے

کھلتے نہ مجھے شام و سحر کے یہ اجالے

جو جرم محبت کے سزاوار نہ ہوتے

پھر عشق میں کرتا نہ میں احساس ندامت

تم جیسے بھی ہوتے پہ جفا کار نہ ہوتے

ہم کو بھی کہاں شوق تھا مے خواری کا ساقی

گر عشق نہ ہوتا تو یوں مے خوار نہ ہوتے

ہر خواب کی تعبیر ہی ہو جاتی مکمل

ہم کاش تِرے عشق میں بیدار نہ ہوتے

افسردہ سا دریا تھا تو کیا چاہتے ساحل

ہم وہ تھے شناور جو کبھی پار نہ ہوتے

ہوتے نہ صدف قلب تِری آنکھ کے خالی

پلکوں پہ اگر ابر گہربار نہ ہوتے


انیس قلب

No comments:

Post a Comment