Monday, 30 December 2024

گھبرا کے جہاں سے یہ ستم کش ترے گھر جائے

 گھبرا کے جہاں سے یہ ستم کش تِرے گھر جائے

اور در ہو تِرا بند تو بتلا کہ کدھر جائےِ؟

رشک آئے ہے، غمخوار مِرا حال نہ کہنا

میں جا نہ سکوں واں تلک اور میری خبر جائے

ہر گام پہ حشر ان کا اُٹھائے ہوئے چلنا

اس کی نہیں پروا کہ جیے یا کوئی مر جائے

دل دیں گے ہم اس کا کافرِ بد عہد کو سو بار

دے کر کوئی لیتے ہیں، مُکر جائے، مُکر جائے

ہے جادہ بھی واں، موجۂ آبِ دمِ شمشیر

گزرے وہ تِرے کُوچہ میں اور سر سے گزر جائے

دونوں کی نکل جائے تمنائے شہادت

سر سے تِری شمشیر اگر دل میں اتر جائے

ہٹ ہٹ کے اندھیرا نہ کرو آنکھوں کے آگے

واں تک تو نظر آؤ، جہاں تک کہ نظر جائے

اے بادِ صبا! درہم و برہم نہ کر ان کو

ڈرتا ہوں کہ وہ زُلف مجھی پر نہ بکھر جائے

کیا پوچھتے ہو وضعِ جنوں خیز بیاں کو

اس طرح نہ یا رب کوئی ہستی سے گزر جائے


بیان میرٹھی

سید محمد مرتضیٰ بیان

No comments:

Post a Comment