Friday, 20 December 2024

آرزو باقی نہیں کوئی خوشی باقی نہیں

 آرزو باقی نہیں کوئی خُوشی باقی نہیں

بُجھ گئی ہے شمعِ دل اب روشنی باقی نہیں

اے امیدو! سو بھی جاؤ، شامِ غم ڈھلنے لگی

اب نشاطِ زندگی میں دل کشی باقی نہیں

پہروں احساسِ غریبی پر تھا جھنجھلایا کبھی

لاشۂ احساس میں اب تشنگی باقی نہیں

گیت بکھرائے تھے میں نے راہِ اُلفت میں کبھی

اب شکستہ ساز ہوں،۔ وہ نغمگی باقی نہیں

نام سے پرویز جن کے چار سُو تھی روشنی

بُجھ گئے وہ رنج و غم سے روشنی باقی نہیں


کرشن پرویز

ہری کرشن تھاپر

No comments:

Post a Comment