کس نے یہ دل کو تمنائے حراست دے دی
روز و شب جلنے کو زنجیر حرارت دے دی
سب کو سمجھایا؛ بری بات ہے نفرت کرنا
بڑے آرام سے پر خود کو رعایت دے دی
ہائے ظالم نے ذرا سا بھی تکلف نہ کیا
ہم نے چاہی جو اجازت تو اجازت دے دی
آپ اپنا کوئی کرتا ہے برا ایسے کیا؟
دل سی ہستی مجھے از راہِ شرارت دے دی
کوئی آسان نہیں چھوڑ کے جانا دنیا
درد و غم نے مگر انسان کو ہمت دے دی
مانگیے رب سے ذرا سوچ سمجھ کر یاسر
آزمانے پہ اگر آیا تو دولت دے دی
یاسر فاروق
No comments:
Post a Comment