حال بدلا ہی نہیں اب تک دل دلگیر کا
کچھ سبب بتلائیے گا آپ اس تاخیر کا
ہم فنا کی حد سے آگے بڑھ گئے تھے عشق میں
اس سے آگے کیا لکھیں ہم قصہ اب تدبیر کا
میں بہا آیا ہوں خط گنگا میں اپنے پیار کے
جو کلیجہ سے لگی ہے کیا کروں تصویر کا
کل تلک دعویٰ تھا بدلیں گے مزاج وقت آپ
آج رونا رو رہے ہیں آپ بھی تقدیر کا
کیا سمجھ پائے گا وہ شعلوں پہ چلنے کا مزہ
علم ہی جس کو نہیں ہو عشق کی تاثیر کا
عاشقوں کو مرہم ناسور دے کر وہ گئے
یہ بڑا احسان ہے ہم پر ہمارے میر کا
روح کا پنچھی تڑپتا ہے بدن کی قید میں
ہم تو اب سنتے نہیں ہیں شور بھی زنجیر کا
نازنیں پوشیدہ ہے میرے قلم کی باہوں میں
تو فقط مطلب سمجھ اس میں چھپی تحریر کا
اپنے بچوں کو سناؤ تم ہماری داستاں
اب پرانا ہو گیا ہے قصہ رانجھا ہیر کا
ہر جوانی کو بڑھاپا ایک دن آتا ہی ہے
رنگ اب اڑنے لگا ہے زیست کی تحریر کا
ارمان جودھپوری
No comments:
Post a Comment