کون سُنتا ہے غم کے ماروں کی
شرط کیسی کرائے داروں کی
وہ سمجھتا نہیں اشاروں کی
تم کو سُوجھی ہے استعاروں کی
مُنحصر سب ہے تیرے آنے پر
اپنی مرضی کہاں بہاروں کی
کشتیاں جب تلک نہیں لوٹیں
سانس اٹکی رہی کناروں کی
اپنے جگنو بہت ہیں شب کے لیے
کیوں خوشامد کریں ستاروں کی
ناؤ سب راستوں سے واقف ہے
جان سانست میں ہے سواروں کی
کمل ہاتوی
No comments:
Post a Comment