ہوئی ہے مہرباں ان کی نظر آہستہ آہستہ
ہوا طے یہ محبت کا سفر آہستہ آہستہ
ہوا رنگین موسم کا اثر آہستہ آہستہ
مچلتے ہیں مِرے قلب و نظر آہستہ آہستہ
ادھر میرے دل بیتاب کے بڑھتی ہے بیتابی
ادھر کالی گھٹاؤں کا اثر آہستہ آہستہ
بہت محتاط ہو کر بھی گزر جائیں گے ہم لیکن
اتر جائے گی دل میں وہ نظر آہستہ آہستہ
کرن اک روز میرے دل کو دیوانہ بنا دے گا
کسی کی مست آنکھوں کا اثر آہستہ آہستہ
کرن سنگھ
No comments:
Post a Comment