Tuesday, 24 December 2024

اسی لیے تو نہیں کٹتی رات آدمی کی

 اسی لیے تو نہیں کٹتی رات آدمی کی

خدا کی ذات سے مشکل ہے ذات آدمی کی

نئے خیال کی باقی کہیں جگہ نہ رہے

وسیع اتنی نہ ہو کائنات آدمی کی

خدا کا بھی کوئی شاید سراغ مل جائے

سمجھ لی جائے اگر نفسیات آدمی کی

خدا نے بیچ میں ایسا فساد برپا کیا

ادھوری رہ گئی دنیا سے بات آدمی کی

المیہ صرف یہی ہے یہی رہے گا بھی

خدا کا دین مگر دینیات آدمی کی

خدا خود ایسی جگہ جان بوجھ کر گیا ہے

پہنچ سکے نہ جہاں کوئی بات آدمی کی

ہم اور کچھ بھی رہیں ہیں پرانے وقتوں میں

اگل رہی ہے زمیں باقیات آدمی کی


امان عباس

No comments:

Post a Comment