اسی لیے تو نہیں کٹتی رات آدمی کی
خدا کی ذات سے مشکل ہے ذات آدمی کی
نئے خیال کی باقی کہیں جگہ نہ رہے
وسیع اتنی نہ ہو کائنات آدمی کی
خدا کا بھی کوئی شاید سراغ مل جائے
سمجھ لی جائے اگر نفسیات آدمی کی
خدا نے بیچ میں ایسا فساد برپا کیا
ادھوری رہ گئی دنیا سے بات آدمی کی
المیہ صرف یہی ہے یہی رہے گا بھی
خدا کا دین مگر دینیات آدمی کی
خدا خود ایسی جگہ جان بوجھ کر گیا ہے
پہنچ سکے نہ جہاں کوئی بات آدمی کی
ہم اور کچھ بھی رہیں ہیں پرانے وقتوں میں
اگل رہی ہے زمیں باقیات آدمی کی
امان عباس
No comments:
Post a Comment