بازارِ محبت میں شرمندہ شرافت ہے
پھُولوں کی نمائش ہے خُوشبو کی تجارت ہے
ہنستے ہوئے گُلشن کو پل بھر میں رُلا ڈالے
آوارہ ہواؤں میں ایسی بھی مہارت ہے
تعمیر کا جذبہ بھی، تخریب کا نقشہ بھی
یہ شوقِ شہادت ہے، یا ذوقِ بغاوت ہے
بُجھتے ہوئے انگارے پیغام یہ دیتے ہیں
شعلوں سے اُلجھنے کی شبنم میں جسارت ہے
اوقات کی حد سے وہ آگے نہیں بڑھ سکتا
قسمت کی ہتھیلی پر روشن یہ عبارت ہے
اشعار اثر میرے منسوب اسی سے ہیں
جس فکر رسا کی بھی انگڑائی قیامت ہے
اثر نظامی
No comments:
Post a Comment