مجھے نظر سے گرائے یہ ہو نہیں سکتا
وہ میرا پیار بھلائے یہ ہو نہیں سکتا
میری وفاؤں کے پیمان تھے رقم جن پر
وہ ان خطوں کو جلائے یہ ہو نہیں سکتا
تمام شکوے گلے در کنار کوتے ہوئے
وہ شخص مجھ کو بلائے یہ ہو نہیں سکتا
میں روٹھ جاؤں کبھی بالفرض شرارت سے
وہ آ کے مجھ کو منائے یہ ہو نہیں سکتا
جو اس نے لکھا تھا اپنے نفیس ہاتھوں پر
وہ میرا نام مٹائے یہ ہو نہیں سکتا
کہ جس طرح سے ختم کر گیا ہے دانش
کبھی لوٹ کے آئے یہ ہو نہیں سکتا
ارباز دانش
No comments:
Post a Comment