دُنیا کی خاطر نادانی کرتے ہیں
پاگل ہیں جو خُون کو پانی کرتے ہیں
منظر منظر کرب و بلا کا موسم ہے
ہم بھی غزل میں نوحہ خوانی کرتے ہیں
نیند اُڑا کر لے جاتی ہے خوابوں کو
جاگ کے آنکھوں کی نگرانی کرتے ہیں
مائیں اوڑھتی ہیں بچوں کے سارے دُکھ
بچے پھر بھی نا فرمانی کرتے ہیں
خُوشبو سے اور پھُول سے ان کا رشتہ کیا
بے موسم جو گُل افشانی کرتے ہیں
چاندنی راتوں کے دُشمن یہ سرکش لوگ
سُورج سے بھی رُو گردانی کرتے ہیں
جھُوٹے سچے لکھتے ہیں اشعار ندیم
ہم بھی غزل میں بے ایمانی کرتے ہیں
ندیم عرشی
No comments:
Post a Comment