دنیا سجی ہوئی ہے جو بازار کی طرح
میں بھی چلوں گا آج خریدار کی طرح
ٹوٹے ہوں یا پرانے ہوں، اپنے تو ہیں یہی
خوابوں کو جمع کرتا ہوں آثار کی طرح
یہ او بات ہے کہ نمایاں رہوں،۔ مگر
دنیا مجھے چھپائے ہے آزار کی طرح
میری کتابِ زیست تم اک بار تو پڑھو
پھر چاہے پھینک دو کسی اخبار کی طرح
اب زندگی کی دھوپ بھی سیدھا کرے گی کیا
اب تک میں کج رہا تِری دستار کی طرح
مدت ہوئی کہ گھومتا پھرتا ہوں رات دن
افکار کے دیار میں نادار کی طرح
اس خوف سے کہ سایہ بھی اپنا نہ چھوٹ جائے
رک رک کے چل رہا ہوں میں بیمار کی طرح
صبا جائسی
کبیر احمد
No comments:
Post a Comment