تِری فضول بندگی بنا نہ دے خدا مجھے
میں کیا ہوں اور تُو سمجھ رہا ہے جانے کیا مجھے
نہ تُو نظر میں ہے کہیں نہ دشت ہے نہ شہر ہے
یہ کس خلا میں کھینچ لائے تیرے نقش پا مجھے
تُو اپنا کام کر گزر، مجھے کوئی گلہ نہیں
جو وقت نے بنا دیا ہوا تجھے، دِیا مجھے
تجھے ہی سوچتے ہوئے پھر آج سو گیا ہوں میں
گزر تِرا ہو خواب سے تو نیند سے جگا مجھے
وہاں سے دیکھتی ہے کیا ہوائے دشت ماریا
ذرا مِرے قریب آ میں خاک ہوں اڑا مجھے
میں جانتے ہوئے بھی سب خریدتا چلا گیا
وہ اشک بیچتا رہا بتا کے قہقہہ مجھے
ملے تمام لوگ زندگی کی دھوپ چھاؤں میں
بس ایک امتیاز ہی کہیں نہیں ملا مجھے
امتیاز احمد خان
No comments:
Post a Comment