بشر بشر میں یہ شیطان کی سی خُو کیا ہے
جدال گاہ ہے دنیائے رنگ و بُو کیا ہے
جہانِ غم میں مسرت کی جُستجو کیا ہے
دو روزہ زیست میں دولت کی آرزُو کیا ہے
کرو تو بات کچھ ایسی کہ جس سے بات بنے
یہ کیا تمہاری تمنا، یہ آرزُو کیا ہے
جلا سکے نہ جو دل کو وہ آگ آگ ہے کیا
جو مجھ کو راکھ نہ کر دے وہ شعلہ رُو کیا ہے
چمن کو میں نے وفاؤں کے خون سے سینچا
لہُو جو رنگ نہ لائے تو وہ لہُو کیا ہے
تمہارے جلوؤں کی تابانیوں میں ڈوبا ہوں
یہ کائناتِ حسیں میرے رُو برُو کیا ہے
ہم ایسے شیش محل میں اب آ گئے نازی
ہمیں تو ہم نظر آتے ہیں چار سُو کیا ہے
عبدالطیف نازی
No comments:
Post a Comment