فریب دے گا نظر کو شباب لگتا ہے
یہ ٹوٹ جائے گا، جامِ شراب لگتا ہے
تمام لفظوں میں نقش و نگار اس کے ہیں
وہ پھول چہرہ مجھے تو کتاب لگتا ہے
مِرے بدن میں سمندر ہیں پیاس کے یارو
ہر ایک شکل میں پانی سراب لگتا ہے
ستارہ آنکھوں سے وہ جب بھی دیکھتے ہیں مجھے
تمام شہر مجھے ماہتاب لگتا ہے
ڈاکٹر کنول فیروز
No comments:
Post a Comment