Wednesday, 25 December 2024

زندگی بوجھل ہوئی آزار سے

 زندگی بوجھل ہوئی آزار سے

جسم جھکتا جا رہا ہے بار سے

دوستوں نے اس قدر دھوکے دئیے

اور رغبت بڑھ گئی اغیار سے

اب بیاں کیسے کروں رُودادِ غم

کام مُشکل ہے دل نا چار سے

ہجر کی راتوں میں بہتا ہی رہا

ایک نالہ چشمِ دریا بار سے

مثل مجنوں ریگزاروں میں رہے

سر پٹکتے ریت کی دیوار سے

ہم اسیران محبت💕 ہیں یہاں

اُلجھے ہیں اب گیسوئے خمدار سے

قلب تیری غزلیں یوں شاداں کریں

درد نکلے ہے تِرے اشعار سے


انیس قلب

No comments:

Post a Comment