زندگی بوجھل ہوئی آزار سے
جسم جھکتا جا رہا ہے بار سے
دوستوں نے اس قدر دھوکے دئیے
اور رغبت بڑھ گئی اغیار سے
اب بیاں کیسے کروں رُودادِ غم
کام مُشکل ہے دل نا چار سے
ہجر کی راتوں میں بہتا ہی رہا
ایک نالہ چشمِ دریا بار سے
مثل مجنوں ریگزاروں میں رہے
سر پٹکتے ریت کی دیوار سے
ہم اسیران محبت💕 ہیں یہاں
اُلجھے ہیں اب گیسوئے خمدار سے
قلب تیری غزلیں یوں شاداں کریں
درد نکلے ہے تِرے اشعار سے
انیس قلب
No comments:
Post a Comment