آماجگاہ فتنہ و شر ہے وطن ابھی
بدلا نہیں ہے آہ نظامِ کہن ابھی
طے کر رہا ہوں میں حق و نا حق کا مرحلہ
دہرا رہا ہوں قصۂ دار و رسن ابھی
اے رہروانِ شوق ذرا دیکھ بھال کے
رہبر کی شکل میں ہیں بہت راہزن ابھی
یہ کہہ رہی ہے ہر گلِ رنگیں سے عندلیب
نا پائیدار ہے یہ بہارِ چمن ابھی
فیضی نہ پوچھ مجھ سے مِری شاعری کا حال
کرنا ہے مجھ کو خدمتِ اربابِ فن ابھی
فیضی نظام پوری
No comments:
Post a Comment