نگاہِ شوق کے زیرِ اثر ہونا ہی پڑتا ہے
وہ چاہیں یا نہ چاہیں جلوہ گَر ہونا ہی پڑتا ہے
بہ ہر عالم محبت کو سپر ہونا ہی پڑتا ہے
جدھر اٹھتی ہیں وہ نظریں اُدھر ہونا ہی پڑتا ہے
جواب ان کی عتاب آلودہ نظروں کا کہاں ممکن
نظامِ دہرکو زیر و زبر ہونا ہی پڑتا ہے
جہاں گُم ہو چکے ہیں اہلِ دل کے کارواں لاکھوں
اسی منزل پہ مجبورِ سفر ہونا ہی پڑتا ہے
کبھی وہ خود اُٹھا دیتے ہیں ہر پردہ تجلّی کا
کبھی دل کو بھی سر تا پا نظر ہونا ہی پڑتا ہے
حقیقت بن کے رہ جاتا ہے دورِ بےکسی ورنہ
بظاہر ہر شبِ غم کو سحر ہونا ہی پڑتا ہے
غرور و سرکشی انسان کی فطرت سہی لیکن
جبینوں کو رہینِ سنگ در ہونا ہی پڑتا ہے
کہاں بے کیف معصومی، کہاں لطفِ پشیمانی
فرشتہ بننے والوں کو بشر ہونا ہی پڑتا ہے
ادیب اک دورِ نازک یوں بھی آتا ہے گلستاں میں
کہ پھولوں کو بھی ہم رنگِ شرر ہونا ہی پڑتا ہے
ادیب مالیگانوی
محمد بشیر
No comments:
Post a Comment