شعور دیدۂ پُر نم ملا ہے
بہت کچھ کھو کے تیرا غم ملا ہے
نشیمن اپنے ہاتھ سے جلا کر
سرورِ گیسوئے برہم ملا ہے
خود اپنی جستجو میں گم رہے ہیں
ہمیں ایسا بھی اک عالم ملا ہے
تِرے دربار سے اے حسنِ خودبیں
فریبِ ہوش بھی کم کم ملا ہے
رسائی میرے اشکوں کی یہاں تک
چمن کا ذرہ ذرہ نم ملا ہے
نگاہِ ناز کی ہر بے رخی سے
فقط اک وعدۂ مبہم ملا ہے
مِری قسمت کی تاریکی میں زیبا
چراغ عمر بھی مدھم ملا ہے
عفت زیبا کاکوروی
No comments:
Post a Comment