Friday, 20 December 2024

غموں کے گرداب میں گِھرا ہوں مجھے بچا لے

 غموں کے گرداب میں گِھرا ہوں، مجھے بچا لے

مِرے خدایا! میں تھک چکا ہوں، مجھے بچا لے

کبھی تھا جس کو میں دل سے پیارا، بہت ہی پیارا

اب اس کے دل کا ہی مسئلہ ہوں، مجھے بچا لے

میں مانتا ہوں کہ میں بُرا ہوں، مگر اے مولا

میں پارساؤں میں گِھر چکا ہوں، مجھے بچا لے

مُنافقوں کے ہجوم ہر سُو لگے ہوئے ہیں

میں کُوفیوں سے اُلجھ پڑا ہوں، مجھے بچا لے

حسِین چہروں سے پیار کرتے ہیں دُنیا والے

دلوں کے اندر میں جھانکتا ہوں، مجھے بچا لے

قدم جہاں لڑکھڑا گئے تھے، تمہارے جاناں

میں اب تلک اس جگہ کھڑا ہوں، مجھے بچا لے

کہ جو مسائل تباہ کر کے ہی چھوڑتے ہیں

میں ان مسائل میں پھنس گیا ہوں، مجھے بچا لے

بغیر مطلب کے چاہتا ہوں، جسے بھی چاہوں

معاشرے سے بہت جُدا ہوں، مجھے بچا لے

اگر بچانا ہے خُود کشی سے حیات ممکن

میں اس کی آنکھوں میں ڈُوبتا ہوں، مجھے بچا لے


حیات عبداللہ

No comments:

Post a Comment