وہ زخم دل ملے ہیں مجھے اپنے یار سے
مجبور ہو گیا ہوں میں ان کے شمار سے
ق
بیزار ہو گیا ہوں میں قول و قرار سے
نفرت سی ہو گئی محبت سے پیار سے
ہر روز بڑھ رہا ہے ضرورت کا یہ پہاڑ
دیوانہ ہو نہ جاؤں غمِ روزگار سے
دامن صداقتوں کا نہیں چھوڑنا کبھی
آوازِ حق بلند ہو حتیٰ کے دار سے
سر کا جھکاتے پھرتے ہیں یونہی وہ در بہ در
جو لوگ مانگتے نہیں پروردگار سے
نفرت سے دشمنی سے نہ حل مسئلہ ہوا
ہوتا ہے اس جہاں میں ہر اک کام پیار
مسلک میں اور فِرقوں میں ہے قوم بٹ گئی
اللہ، تُو بچا لے ہمیں انتشار سے
اب آ بھی جا کہ دل کو مِرے کچھ ملے قرار
عاجز میں آ گیا ہوں تِرے انتظار سے
محتاط میں بہت تھا مگر پھر بھی دیکھیے
"دامن الجھ گیا مِرا گلشن کے خار سے"
سچ بات میں کہوں گا بہ بانگِ دُہل ذکی
مجھ کو نہیں ہے خوف کسی اقتدار سے
کوکب ذکی
No comments:
Post a Comment