برا سلوک جو کرتا ہے بے نواؤں سے
وہ آدمی نہیں بچتا کبھی سزاؤں سے
سکوں ملا نہیں مجھ کو نکل کے گاؤں سے
جلا ہوں دھوپ میں کتنا گزر کے چھاؤں سے
بنا کے خاک کا پتلا زمیں پہ پھینک دیا
ڈھکا ہے جسم مِرا زخم کی قباؤں سے
بھٹک رہے ہیں سبھی حدِ ممکنات سے دور
گزر سکا نہ کوئی بے جہت خلاؤں سے
ہوا نصیب اسے بھی نہ اپنی ذات کا فیض
گھنا درخت ہے محروم اپنی چھاؤں سے
رہا نہ جائے گا زندانِ آگہی میں اسیر
اتار پھینک یہ زنجیر اپنے پاؤں سے
کسی طرف سے وہ گزریں خبر تو ہو گی ضرور
کھلے گا بھید مہکتی ہوئی ہواؤں سے
سروں پہ آ کے یہ سورج ٹھہر گیا تو اثر
نہ بچ سکے گا کوئی موت کی شعاؤں سے
ابوبکر اثر انصاری
No comments:
Post a Comment