Thursday, 26 December 2024

برا سلوک جو کرتا ہے بے نواؤں سے

 برا سلوک جو کرتا ہے بے نواؤں سے

وہ آدمی نہیں بچتا کبھی سزاؤں سے

سکوں ملا نہیں مجھ کو نکل کے گاؤں سے

جلا ہوں دھوپ میں کتنا گزر کے چھاؤں سے

بنا کے خاک کا پتلا زمیں پہ پھینک دیا

ڈھکا ہے جسم مِرا زخم کی قباؤں سے

بھٹک رہے ہیں سبھی حدِ ممکنات سے دور

گزر سکا نہ کوئی بے جہت خلاؤں سے

ہوا نصیب اسے بھی نہ اپنی ذات کا فیض

گھنا درخت ہے محروم اپنی چھاؤں سے

رہا نہ جائے گا زندانِ آگہی میں اسیر

اتار پھینک یہ زنجیر اپنے پاؤں سے

کسی طرف سے وہ گزریں خبر تو ہو گی ضرور

کھلے گا بھید مہکتی ہوئی ہواؤں سے

سروں پہ آ کے یہ سورج ٹھہر گیا تو اثر

نہ بچ سکے گا کوئی موت کی شعاؤں سے


ابوبکر اثر انصاری

No comments:

Post a Comment